Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 15

ایک ہفتے بعد۔۔

یہ لو (تصبیہا نے اس کہ آگے چائے کا کپ کیا ۔تصبیہا نے کافی حد تک خود کو سبھال لیا تھا اور اس میں بھی موصب کا ہاتھ تھا
تھینکس ۔۔(موصبب نے مسکرا کر کہا تصبیہا بھی اپنا پکڑے اس کہ برابر میں بیٹھ گئی۔)

چائے اچھی بنی ہے (موصب نے چائے پیتے ہوئے کہا)

مجھے پتا ہے ۔۔(تصبیہا نے اتراتے ہوئے کہا)

وہ کوئی جواب دیتا کہ دروازے دستک ہوئی)

اس وقت کون آگیا ۔۔(موصب بولتا ہوا اٹھا اور دروازہ کھلنے کہ لیے باہر گیا ۔جیسے ہی اس نے دروزہ کھولا سامنے اس کہ موم ،ڈید تھے ۔)

ڈیڈ آپ ؟(وہ خوشی اور حیرت سے بولا)

کیوں ہم نہیں آسکتے ۔؟(وہ بولے تو موصب ان کے گلے لگتے ہوئے بولا )

آپ کا اپنا گھر ہے ڈیڈ ۔۔۔ آہیں اندر آہیں ۔۔(وہ انھیں لے کر اندر آیا )

تصبیہا بھی انھیں اچانک دیکھ کر حیران تھی ۔)

اسلام و علیکم ( اس نے سلام کیا تو موصب کہ ڈیڈ نے اس سر پر ہاتھ رکھا اور اس کی موم نے اسے گلے لگا لیا)

کیسے ہو تم دونوں ؟( موصب کی موم نے پوچھا تو موصب کی تصبیہا بولی)

اللہ کا شکر ہے ۔بلکل ٹھیک ۔آپ کیسے ہیں ؟ (وہ واقع خوش تھی انھیں دیکھ کر)

ہم بھی ٹھیک ہیں (وہ بولیں ۔۔)

یہ کہاں ہر رہے ہو تم ؟( موصب کہ ڈیڈ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے )

اب کیا بتاتا وہ انھیں کہ کیوں لیا تھا اس نے یہ گھر ۔۔۔جب موصب نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ تصبیہا سے بولے )

بیٹا آپ نے کچھ نہیں کہا اس بارے میں ؟(ان کہ سوال پر وہ بھی چپ رہی ۔ پھر خاموشی کو تصبیہا نے توڑا وہ بولی)

آپ لوگ تھگ گئے ہوگے ۔فریش ہوجایئں میں کھانا لگاتی ہوں ۔۔(وہ بول کر کھڑی ہوگئی ۔ وہ دونوں بھی کھڑے ہوگئے تو وہ انھیں موصب کہ کمرے میں لے گئی )

کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو پلز بتادیجئے گا۔(تصبیہا ان دونوں سے بولی)

بیٹا پریشان مت ہو۔ ہم ٹھیک ہیں کوئی بھی چیز چاہیے ہوگی تو ضرور بتادیں گے۔( موصب کی موم اس سے بولیں تو ان کی بات سن کر وہ مسکرائی اور باہر نکل گئی ۔پھر کچن میں آئی اور کھانا تیار کرنے میں لگ گئی ۔)

موصب بھی کچن میں آگیا اور کاونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا ۔ )

میں کوئی مدد کروں ؟(اسے بزی دیکھ کر وہ بولا)

نہیں میں کرلوں گی تم بس موم ،ڈیڈ کو دیکھ لو انھیں کوئی پریشانی تو نہیں ہے ۔(تصبیہا اسے دیکھے بغیر بولی)

وہ ٹھیک ہیں یارررر۔(موصب اس کہ پاس آکر بولا تو تصبیہا جھٹکے سے پیچے ہوئی)

کیا کررہے ہو ۔ کوئی آجائے گا ،جاو تم یہاں سے ۔کام کرنے دو مجھے ۔(وہ اس کا ارادہ سمجھتے ہوئے بولی)

بہت ظالم ہو تم ،تمہیں ہتا ہے ۔( وہ منہ بنا کر بولا )

شکریہ مجھے اطلاع دینے کے لیے (وہ مسکرا کر بولی )

تو وہ منہ بناکر باہر چلاگیا تو تصبیہا زور سے بولی)

شاہ کو بھی کھانے پر بولالو ۔( اس کی آواز سن کر وہ بولا)

خود بولالو میں نہیں بولارہا ۔( اس کا موڈ ابھی بھی خراب تھا مگر اسے جواب دینے کہ ساتھ ساتھ اس نے شاہ کو بھی کال ملائی اوراسے انے کا کہا)

تسبیہا نے دستر خوان بچھایا اور سب کھانے پر بیٹھ گئے ۔ شاہ نے تصبیہا کہ ساتھ مل کھانا لگوایا ۔)

مزا اگیا آج ۔مجھے اپنے بچپن کہ دن یاد آگئے ،جب ہم سب مل کر اسے ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے اور ہماری اماں ہمیں کھانا نکال نکال کردیتی تھیں ۔ جو مزا دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے کا ہے نا وہ ٹیبیل پر بیٹھ کر کھانے کر نہیں ہے ۔ (موصب کہ ڈیڈ اپنے بچپن کہ دن یاد کرتے ہوئے بولے )

میں بلکل اگری کرتی ہوں آپ سے ۔انکل یہ تو ہماری تہزیب کا حصہ ہے ۔مگر ہم موڈرن بننے کہ چکر میں اپنی تہذیب کو بھول رہے ہیں ۔(تصبیہا بولی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانا کھانے کہ تھوڑی دیر بعد شاہ چلا گیا تو موصب بولا)

ڈیڈ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ؟

ہاں ہاں بولو۔( وہاں موصب کی موم اور تصبیہا بھی موجود تھیں )

ڈیڈ ایک لڑکی ہے ۔۔۔(وہ تمید بندھنا چاہتا تھا کہ اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے اس کہ موم بولیں )

تمہارا دماغ ٹھیک ہے موصب ، تصبیہا کہ ہوتے ہوئے تم کسی اور کی بات کررہے ہو۔(ان کی بات سن کر تصبیہا نے موصب کو دیکھا)

میری بات تو سن لیں پہلے ۔(موصب چڑکر بولا )

ایک لڑکی ہے جیسے شاہ پسند کرتا ہے ۔(موصب کے بولنے کی دیر تھی کہ تصبیہا نے حیرت سے اسے دیکھا وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کس کی بات کررہا ہے ۔اسے خوشی اس بات کی بھی تھی کہ اسے یاد تھی اس کی بات ورنا وہ تو سمجھی تھی کہ وہ بھول گیا)

کیا شاہ نے مجھے تو نہیں بتایا۔(وہ پھر بولیں )

اس نے کسی کو بھی نہیں بتایا ، بس پتا چل گیا ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اس کہ گھر شاہ کا رشتہ لے کر جاہیں ۔اچھے لوگ ہیں ۔میں نے پتا کر وایا ہے ۔ ابھی نکاح کردیتے ہیں پھر کچھ دنوں میں رخصتی ۔(موصب نے انھیں اپنا موقف بتایا)

یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ۔تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ( موصب کہ ڈیڈ اپنی بیگم سے بولے)

مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے ۔اگر موصب نے دیکھا ہے تو کچھ سوچ کر ہی بول رہا ہے ۔(انھوں نے خوشی سے کہا )

تصبیہا بیٹا آپ کیا کہتی ہو؟(اب انھوں نے تصبہیا سے پوچھا تو موصب نے تصبیہا کی طرف دیکھا)

جیسے آپ لوگوں کی مرضی ،مجھے کیا مسئلہ ہوناہے ۔یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ ہم شاہ کی پسند کو ترجی دے رہے ہیں ۔(تصبیہا بھی خوشی خوشی بولی)

بس راضی تھے اس رشتے کہ لیے ۔) یہاں سے جاکر پہلا کام یہ ہی کریں گے(موصب کہ ڈیڈ بولے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات گئے تک باتیں چلتی رہیں پھر تصبیہا نے موصب کہ کمرے میں ہی انھیں سونے کا کہا اور انھیں وہاں چھوڑ کر باہر آئی تو موصب صوفے پر بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ تصبیہا نے اشارے سے پوچھا )

کیا ہوا ؟
میں کہاں سوں گاَ؟(اس نے تصبیہا سے پوچھا )

شرم کرو وہ تمہارے ماں ،باپ ہیں وہ کہاں سوتے ۔(تصبیہا نے اسے شرم دیلائی )

میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا ۔(اس برا لگا تھا )

اچھااااااااااااا(اس نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے کہا )

میں یہاں سوں گا ۔۔(وہ صوفے لیٹا ہوا بولا)

اووو ہیلو میں یہاں سوتی ہوں ۔ یہ میری جگہ ہے ہٹو یہاں سے۔(وہ بگڑتے ہوئے بولی)

اٹھا سکتی ہو تو اٹھالو ۔۔(وہ پھیل کر لیٹ گیا ۔تصبیہا نے اس ہاتھ پکڑ کر اسے کھنچا مگر وہ کہاں اور بچاری تصبیہا کہان ۔ وہ تھک گئی تو اس نے موصب کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی)

اللہ کرے تمہیں یہاں نیند ہی نا آئے ۔(وہ غصے سے بولی اور نیچے لیٹ گئی۔)

تھوڑی دیر بعد اور اٹھا اور بولا )

کنتی کالی زبان ہے تمہاری ، مجھے نیند ہی نہیں آرہی ۔میں چھت پر جارہا ہوں ۔تم بھی چلو ۔(وہ تصبیہا ہلاتے ہوئے بولا)

میں کہیں نہیں جارہی تمہیں جانا ہے تم جاو ۔(وہ ابھی بھی غصے میں تھی ۔)

نہیں جاو گی تو اٹھا کر لے جاوں گا ۔(وہ دھمکی دیتے ہوئے بولا)

تصیبہا نے کوئی جواب نہیں دیا اور لیٹی رہی تو موصب اٹھا اور اسے اپنی بانہوں اٹھا لیا )

موصب چھوڑو مجھے ،نہیں جانا مجھے چھت پر ۔۔(تصبیہا ضد کرتی رہی اور اس کہ کندھو پر مارتی رہی مگر وہ بھی موصب تھا اسے اوپر لے ہی گیا ۔ اوپر ایک تخت تھا موصب نے تصبیہا اس پر لیٹایا اور خود بھی لیٹ گیا ۔)

بہت برے ہو تم ۔۔(تصبیہا اٹھ کر بیٹھ گئی اور غصے سے بولی)

تم سے کم ہی ہوں ۔۔(وہ آرام سے لیٹے ہوئے بولا)

میں نے کیا کیا ہے ؟( تصبیہا نے موصب سے پوچھا )

کچن والا منظر مجھے ابھی بھی یاد ہے۔( موصب نے منہ بناکر بولا)

تصبیہا نے اسے گھورا تو موصب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لیٹایا اور بولا)

لیٹ جاو تھک گئی ہو۔۔۔(تصبیہا اس کہ برابر میں لیٹ گئی وہ دونوں آسمان کو دیکھ رہے تھے پھر تصبیہا بولی)

شکریہ موصب ۔۔۔(وہ مسکرائی اور موصب کی طرف منہ کرکہ بولی )

کس لیے؟(موصب بھی اسے ہی دہکھ رہا تھا)

شاہ کہ رشتے کی بات کرنے کہ لیے۔مجھے لگا تم بھول گئے ہوگے۔(وہ بولی )

ایسا ہوسکتا ہے ؟(موصب نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا تو تصبیہا بھی مسکرانے لگی اور ستارے دیکھنے لگی مگر موصب اسے ہی دیکھ رہا تھا اور پھر سرگوشی کرتے ہوئے بولا)

I may have made some stupid mistakes in my life. but ever thing became right ever since the day you become mine. I love you.
موصب کی آواز میں سحر تھا ۔تصبیہا نے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اپنے پیار کا اظہار لفظوں میں کررہا تھا ۔ تصبیہا کو حیرت میں دیکھ کر وہ بولا)

کیا ہوا ۔سمجھ نہیں آیا کیا؟ (موصب نے شریر لہجے میں بولا اور جب جب تصبیہا کو اس کی بات کا مطلب سمجھ آیا تو وہ غصے سے بولی)

مجھے انگلیش آتی ہے سمجھے ۔۔

بس یہ ہی جننا تھا ۔سمجھ اتی ہے تو جواب کیوں نہیں دیتیں ؟(وہ اس کے جواب کا منتظر تھا۔)

سن لیا جواب ۔۔( اس نے غصے سے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئی ۔موصب اسے غصے میں دیکھ کر ہنسنے لگا I hate you

تصبیہا نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور بولی)

بہت برے ہو تم ۔۔(وہ بول کر نیچے اترنے لگی تو موصب نے اسے ہاتھ پکڑ کر کھنچا تو وہ اس کہ سینے سے جالگی ۔موصب نے اسے اپنے حصار میں لے لیا اور بولا)

اب بولو کیا کہہ رہی تھیں ۔ ( اس کا لہجا محبت سے چور تھا)

یہ ہی کہ تم بہت ہی بدتمیز ہو۔(وہ بھی تصبیہا تھی ،موصب کہ اتنے قریب ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کمپوز کرتے ہوئے وہ بولی)

تصبیہا کے ہاتھ اس کہ سینے پر تھے ۔ایک ہاتھ جو اس کی دل پر تھا اس کی ڈھڑکن ایک عجیب ترتیب میں تھی یا ایسا اسے لگا تو اس نے موصب کو سوالیاں نظروں سے دیکھا تو وہ بولا)

نادان ہے کتنی وہ کچھ سمجھتی ہی نہیں ، سینے سے لگا کر پوچھتی ہے ڈھڑکن کیوں تیز ہے۔۔۔۔۔( وہ ایک ہاتھ سے اس کہ چہرے پے آئے بال ہٹاتا ہوا بولا تو تصبیہا مسکرائی اور بلش کرنے لگی ۔موصب کہ لیے یہ منظر واقع بہت خوبصورت تھا ۔وہ پہلی مرتبہ اسے بلش ہوتا دیکھ رہا تھا ۔ پھر اس نے تصبیہا کی پیشانی پر اپنے لب رکھے اس کہ بعد اس کے ہونٹوں پر ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح آزان کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی تو پہلے اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہا ہے پھر ہوش میں آئی تو پتاچلا کہ وہ موصب کہ سینے پر سر رکھ کر سورہی تھی ۔ اس نے چہرا اٹھا کر موصب کو دیکھا تو وہ سو رہا تھا ۔تصبیہا نے آہستہ سے ہاتھ ہٹائے اور اتھ کر جانے لگی تو ۔وہ بولا)

کہا جارہی ہو؟ (وہ خمار بھری آواز میں بولا )

تم اٹھے ہوئے ہو؟ (تصبیہا نے اس سے کہا تو اس نے آںکھیں کھول دیں اور اسے دیکھنے لگا مگر بولا کچھ نہیں )

میں نماز پڑھنے جارہی ہوں تم بھی اٹھ جاو۔۔(تصبیہا اسے دیکھ کر مسکرائی اور بولی)

آرہا ہوں ۔( وہ بھی اٹھ گیا اور تصبیہا کہہ کر چلی گئی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین دن بعد۔۔۔۔

موصب میں چاہتا ہون تم دونوں بھی ہمارے ساتھ ہی کراچی چلو ۔۔(اس کے ڈیڈ بولے )

مگر ڈیڈ میں ابھی کیسے جاسکتا ہوں ۔۔(موصب نے کہا)

تو شاہ کا رشتہ لے کر کون جائے گا۔۔(اس کی موم بولیں )

آپ لوگ (جواب بھی فورن آیا اس کی طرف سے )

بہت اچھے ،بڑا بیٹا اور بہو یہاں ہیں اور ہم چھوٹے کا رشتہ لے کر جائے گے ۔۔۔۔(اس کے ڈیڈ سسنجیدگی سے بولے)

آپ غصہ کیوں کررہے ہیں ۔میں نہیں جاسکتا آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ہیں ۔( وہ انھیں سمجھانا چاہتا تھا )

مجھے کچھ نہیں سمجھنا ۔۔۔(وہ بولے تو موصب بولا)

اچھا ایسا کریں آپ تصبیہا کو اپنے ساتھ لے جاہیں ،میں کچھ دن بعد آجاوں گا ۔ (موصب بولا تصبیہا نے اسے حیرت دیکھا)

پہلے تو وہ سوچنے لگے پھر بولے )

ٹھیک ہے ۔ایسا کر لیتے ہیں ۔۔(انھوں کہا تو تصبیہا نے بے یقینی سے موصب کو دیکھا )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments